حیدرآباد،12 ؍مئی (پریس نوٹ)۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ
ترسیل عامہ و صحافت سے فارغ طالبہ نجم النساء چمپائیل (25 سالہ) کیرالا کے
ملاپورم میں واقع سی ایچ محمد کویا میموریل گورنمنٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج
میں اب اسی مضمون کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے یوجی سی کے منعقدہ NET
امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی۔ محمد افتخار عالم (29 سالہ) فی الحال نئی
دہلی میں پریس انفارمیشن بیورو (PIB) سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے بھی جونیر
ریسرچ فیلو شپ (JRF) کا امتحان کامیاب کیا ہے۔ عامربدر (27 سالہ) نئی
دہلی میں جسٹرار آف نیوز پیپر آف انڈیا (RNI) میں برسرکار ہیں۔ عامر بدرنے
یوجی سی کا نیٹ (NET) امتحان کامیاب کیا ہے۔مولانا آزاد نیشنل اردو
یونیورسٹی‘ حیدرآباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت سے فارغ ہونے والے یہ چند
نوجوان ہیں ۔ شعبے میں شعبہ کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ ان پیشہ ور نوجوانوں
نے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ اردو یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبا‘
اردو ذریعہ تعلیم کے سبب قومی میڈیا‘ کے اداروں میں جگہ نہیں پاسکتے ہیں۔
صدر شعبہ و ڈین پروفیسر احتشام احمد خان کے مطابق شعبہ بتدریج ترقی کررہا
ہے اور اس بات کو ثابت کرنے میں لگا ہے کہ ذریعہ تعلیم طلبا کی ترقی میں
رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ شعبہ میں بیشتر طلبا کمزور سماجی ۔معاشی پس منظر سے
آتے ہیں بسا اوقات یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد
ہوتے ہیں۔ ایک اور مشترکہ بات یہ ہے کہ ان طلبا کا تعلق دور افتادہ مقامات
سے ہوتا ہے۔ انھیں مارکیٹ کے تقاضوں سے لیس کرنا شعبہ کے لیے کسی چیالنچ
سے کم نہیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ شعبہ ترسیل عامہ وصحافت کا قیام 2004ء
میں عمل میں آیا اور شعبہ جلد ہی اپنی ایک پہچان بنانے کے سفر پر گامزن ہے۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں طلباء کی تربیت کے لیے شعبے میں جدید ترین
انفراسٹرکچر فراہم کیا گیا ہے۔ طلبا کو ویڈیو اسٹوڈیو‘آڈیو اسٹوڈیو‘
اسوسیٹیڈ کنٹرول روم اور ایک جامع پوسٹ پروڈکشن سہولت سے آراستہ آڈیو و
ویڈیو سوٹس‘ ٹیلی پرامپٹر‘ کمپیوٹر گرافکس اور اینی میشن کی سہولیات فراہم
کی گئی ہے۔شعبے میں ہائی اینڈ گرافکس ورک اسٹیشن جو کہ عصری سافٹ وئیر سے
لیس ہیں دستیاب کروائے گئے ہیں تاکہ (2D) اور (3D) اینی میشن اور گرافکس
لیاب میں استعمال کیے جاسکیں۔ شعبے کے پرنٹ لیاب میں تجرباتی اخبار اظہار
کی طباعت کے لیے (14) عصری کمپیوٹرس نصب ہیں یہ اخبار طلباء کی جانب سے خود
ہی شائع کیا جاتا ہے۔
طلباء کو عملی مشق کے لیے تیار کروانے ہم انٹرن شپ کرواتے ہیں تاکہ وہ
عملی رپورٹنگ کا تجربہ حاصل کرسکیں۔ اس طرح سے طلباء انڈسٹری میں داخلہ کے
لیے درکار مہارت حاصل کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد فریاد‘
اسوسی ایٹ پروفیسر نے کہا۔ انھوں نے بتلایا کہ حال ہی میں ڈائرکٹوریٹ آف
آڈیوویژیول پبلیسٹی (DAVP) نے نئی دہلی میں بچوں کو انٹرن شپ کی سہولت دینے
کا پیش کش کیا ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معراج احمدمبارکی کے
مطابق تعلیمی
سال 2013-14کے دوران ہم نے سینماء اسٹڈیز کو بھی نصاب میں شامل کرتے ہوئے
ایک خلاء کو پُر کردیا ہے۔
حال ہی میں شعبے نے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جس میں دنیا بھر کے
نامور صحافی حضرات نے شرکت کی جن میں نجم سیٹھی‘ ین رام‘ راج دیپ
سردیسائی‘ شیکھر گپتا‘ مہمل سرفراز‘ امتیاز عالم‘ کمال خان‘ سواپن داس
گپتا‘ ویدپرتاپ ویدک اور شیشادری چاری بھی شامل تھے۔
سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکییشن کے سابق ممبر ڈاکٹر درگیش ترپاٹھی نے شعبے
کے متعلق کہا کہ اردو کے حوالے سے جڑے بہت سارے غیر ترقی یافتہ ہونے کے
نظریات کی یہاں نفی کی جاتی ہے اور اردو یونیورسٹی کا دورہ کرنے سے آنکھیں
کھل جاتی ہیں۔ 28 سالہ جہانگیر عالم کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا
جاتا ہے کہ اردو میڈیم سے جرنلزم کرنے والے طلبا صرف اردو صحافت کے لیے
کارآمد ثابت ہوتے ہیں یہ سچ نہیں ہے کیونکہ جہانگیر خود اس شعبے کے فارغ
ہیں اور ایک انگریزی ویب پورٹل کے لیے کام کرتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ کے چیرمن پروفیسر شافع قدوائی
کے مطابق اردو ترسیل عامہ کی زبان کے طور پر کارآمد ہے اس حوالے سے آجرین
کو تحفظات تھے لیکن اب اس حوالے سے شروعات ہوچکی ہے۔ ہمیں اس بات کو نہیں
بھولنا چاہیے کہ فلموں میں اسکرپٹ اور اسکرین پلے آج بھی زیادہ تر اردو میں
لکھے جاتے ہیں۔ فلم غلام ستیہ گرہ راج نیتی اور آرکشن کے اسکرپٹ رائٹر
انجم رجب علی نے حال ہی میں شعبے میں ایک لیکچر دیا۔ انھوں نے کہا اردو
ممبئی کی فلم انڈسٹری میں داخلہ میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں رہی ہیں۔ ہمارے
زیادہ تر کامیاب اسکرپٹ رائٹر اردو کے پس منظر سے ہی آئے ہیں۔
تحقیق کے میدان میں شعبے نے سال 2014سے ڈاکٹریٹ پروگرام شروع کیاہے جس کا
فوکس اقلیتیں اور عصری میڈیا کے مسائل ہیں۔عبدالقادر صدیقی کے مطابق میں نے
ای ٹی وی اردو میں اپنی ملازمت ترک کرنے کے بعد شعبے میں پی ایچ ڈی کے
کورس میں داخلہ لیا ہے۔ میں اب مولانا آزاد قومی فیلو شپ کے لیے بھی اہل
قرار پایاہوں تاکہ میں اپنے ریسرچ کے کام کو آگے بڑھا سکوں۔
ڈائرکٹر اسکول آف میڈیا اسٹڈیز سوامی رامانند تیرتھ مرہٹواڑہ یونیورسٹی
نانڈیڑ کے پروفیسر ڈاکٹر دیپک شنڈے نے تسلیم کیا کہ علاقائی زبانوں کا پس
منظر رکھنے والے طلباء کو میڈیا میں جانبدارانہ برتاؤ اور غیر ضروری تحفظات
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی کے سابق نمائندے برائے جنوبی ایشیاء ستیش جیاکب اس بات کو تسلیم
کرتے ہیں کہ علاقائی زبانوں کے صحافیوں کو اپنی صلاحتیں منوانے کے لیے
اوروں کے مقابل زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے لیکن ان طلبا کو موقع دیا جائے تو
وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ کسی سے کم نہیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا شعبہ ترسیل عامہ و صحافت اسی نقطہ
نظر کو تبدیل کرنے کی سمت کام کررہا ہے ۔ اردو یہاں کے طلبا کے لیے روزگار
کا ذریعہ بن گیا ہے جو کہ مختلف سماجی اور معاشی پس منظر سے تعلق رکھتے
ہیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔